
نیکی کر دریا میں ڈال
کسی باغ میں ایک ننھا سا کچھوا رہتا تھا. وہ بہت خاموش طبع اور مددگار تھا. سب جانور اس کی سست رفتاری کا مذاق اڑاتے تھے مگر کچھوا کبھی برا نہیں مناتا تھا
اسی باغ کے کنارے ایک ننھی سی چڑیا نے گھونسلا بنایا ہوا تھا. اس کے تین انڈے تھے جنہیں وہ ہر وقت سینا چاہتی تھی. چڑیا اور کچھوے کی کبھی خاص بات چیت نہ ہوتی تھی لیکن وہ ایک دوسرے کو سلام ضرور کرتے تھے
ایک دن اچانک باغ میں آگ لگ گئی. دھوئیں اور شور سے سب جانور بھاگنے لگے. چڑیا تو گھبرا گئی کہ وہ کیسے اپنے انڈے بچائے گی. وہ اڑ بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ اس کے پر زخمی تھے
کچھوا جو جھاڑیوں کے پیچھے محفوظ تھا اس نے چڑیا کی بے بسی دیکھی. وہ فوراً آہستہ آہستہ اس کے گھونسلے تک پہنچا. چڑیا روتے ہوئے بولی میرے انڈے جل جائیں گے
کچھوا بولا گھبراؤ نہیں میں تمہاری مدد کرتا ہوں. اس نے ایک ایک انڈا احتیاط سے اپنی پیٹھ پر رکھا اور چڑیا کو بھی کہا کہ وہ اس پر بیٹھ جائے. پھر وہ سب کو لے کر محفوظ جگہ کی طرف چل دیا
آگ تیز ہو رہی تھی لیکن کچھوا ہمت سے چلتا رہا. آخرکار وہ سب محفوظ پانی کے جوہڑ تک پہنچ گئے. چڑیا کے انڈے بچ گئے اور وہ بہت خوش ہوئی
آگ بجھنے کے بعد سب جانور واپس آئے. جب انھیں پتہ چلا کہ کچھوا چڑیا اور انڈوں کو بچا لایا ہے تو سب حیران رہ گئے. جنہوں نے اس کا مذاق اڑایا تھا وہ بھی اب اس کی تعریف کرنے لگے
چڑیا نے اپنے بچوں کا نام رکھا صبر شکر اور ہمت. اور کچھوا ان کے لیے سب سے عزیز دوست بن گیا
بچو یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ نیکی کبھی ضائع نہیں جاتی. اور یہ بھی کہ سچائی صبر اور ہمت سے بڑا کوئی ہنر نہیں