
چھٹی جماعت کے استاد بشیرا ماسٹر نے ایک دن کالی تختی پر بڑی سنجیدگی سے لکھا آج کا موضوع ہے ہمدردی اور مدد اور یہ بھی اعلان کیا کہ کلاس کے چار بڑے فنکار طلبا اتوار کو عملی مظاہرہ کریں گے اور پیر کو اپنی کارگزاری لکھ کر لائیں گے
پیر کے دن چاروں طالب علموں نے اپنی اپنی رپورٹ استاد کے سامنے رکھ دی بشیرا ماسٹر نے جب پہلا مضمون پڑھا تو ان کا ہاتھ خود بخود ماتھے پر جا لگا
پہلے طالب علم گڈو نے لکھا کل میں نے دیکھا کہ میرے چھوٹے بھائی کے ہاتھ میں بڑا سا تربوز تھا وہ اسے اٹھا نہیں پا رہا تھا میں نے اس کی مدد کی اور آدھا تربوز خود کھا لیا اس پر وہ خوشی سے رو دیا
دوسرے طالب علم پپو نے لکھا میں نے ایک بوڑھے چچا کو سڑک پار کرا دی حالانکہ وہ ہر بار واپس اپنی پرانی جگہ آ جاتے تھے میں نے چار بار انہیں دونوں طرف کی فٹ پاتھوں پر چکر دلوایا جب وہ تھک گئے تو بولے بیٹا اب تو مجھے اپنے گھر جا لینے دو
تیسرے طالب علم منگو نے لکھا میں نے ایک کتے کو باتھ روم میں بند دیکھا مجھے بڑا رحم آیا میں نے سوچا وہ بور ہو رہا ہے میں نے دروازہ کھولا اور پھر وہ ساری گلی میں ہمدردی بانٹنے نکل گیا تین رکشوں کے ٹائر کاٹ کھائے دو موٹر سائیکل والے گرائے اور دادا کے ساتھ ریس لگائی
چوتھے طالب علم چمچو نے لکھا کل میں نے سنا کہ ہمارے پڑوس کے انکل رات کو چوری کا پلان بنا رہے تھےاور گانا گاتے ہوئے جا رہے تھے
میں نے فوراً اپنے ابو کے موبائل سے پولیس کو اطلاع دی تھوڑی دیر میں پولیس آئی انکل کو لے گئی ابو مجھے زور زور سے ڈانٹتے رہے کہ بیوقوف وہ چورنہیں تھے بلکہ تمہارے ماموں تھے جو شاعری کی محفل میں جا رہے تھے
بشیرا ماسٹر نے سب رپورٹس بند کیں چہرے پر ہاتھ پھیرا اور کہا بچوں ہمدردی اور مدد اچھی چیز ہے مگر عقل ساتھ ہو تو فائدہ ہوتا ہے ورنہ گڈو کا تربوز بھی جائے گا اور چمچو کا ماموں بھی
سبق
سوچ سمجھ کر عقل کے ساتھ ہمدردی کرو ورنہ لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں