
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بڑے جنگل میں ہاتھی نے اپنی طاقت کے زور پر حکومت قائم کر رکھی تھی۔ وہ اپنے لمبے دانت، مضبوط جسم اور گرجدار آواز کے زور پر دوسرے تمام جانوروں کو دبائے رکھتا تھا۔ اگر کوئی جانور اس کا حکم نہ مانتا تو وہ اسے سونڈ سے اٹھا کر پٹخ دیتا یا اسے جنگل سے نکال دیتا۔
ایک دن ہاتھی نے کچھوے کو بلا کر حکم دیا کہ وہ تالاب سے تازہ پانی لے کر آئے اور اسے نہلائے۔ بیچارہ کچھوا آہستہ آہستہ پانی کی طرف چل پڑا، مگر اس کے لیے یہ کام مشکل تھا کیونکہ راستہ کیچڑ سے بھرا ہوا تھا اور کچھوے کی رفتار سست تھی۔ اس نے بڑی کوشش کی مگر جب وہ واپس آیا تو پانی گرم ہو چکا تھا۔
ہاتھی کو بہت غصہ آیا۔ اس نے کچھوے کو ڈانٹا اور اسے جنگل سے نکالنے کا حکم دے دیا۔ کچھوا خوفزدہ ہو گیا اور واپس جاتے جاتے اس نے دل سے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اسے انصاف ملے اور ہاتھی کو اس کے ظلم کا انجام دکھایا جائے۔
دوسری طرف ہاتھی نے اپنی عادت کے مطابق مینڈک سے کہا کہ وہ تالاب کی صفائی کرے اور ساتھ میں ہر روز اس کے لئے تازہ کیلے لایا کرے۔ مینڈک نے حالات کو بھانپتے ہوئے چپ چاپ اس کا حکم مان لیا، مگر دل میں بہت پریشان تھا۔ وہ بھی اللہ سے دعا کرنے لگا کہ اسے ہاتھی کے ظلم سے نجات ملے۔
اگلی صبح جنگل میں اچانک طوفانی بارش شروع ہوئی۔ دریا میں طغیانی آ گئی اور ایک بڑی بجلی سیدھا اس جگہ آ گری جہاں ہاتھی سوتا تھا۔ بجلی لگنے سے ہاتھی زخمی ہو گیا اور زور زور سے چیخنے لگا۔ اس کے بچے اِدھر اُدھر چھپ گئے اور سارا جنگل اس آفت سے ہل کر رہ گیا۔
جب دوسرے جانوروں کو ہاتھی کے حال کا پتہ چلا تو سب نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ وہ جانور جو ہمیشہ ہاتھی کے ظلم کا شکار ہوتے تھے، آج خوش تھے کہ اللہ نے ان کی سن لی ہے۔
ہاتھی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس نے جنگل کے تمام جانوروں کو جمع کیا اور سب سے معافی مانگی۔ اس نے وعدہ کیا کہ آئندہ کسی پر ظلم نہیں کرے گا اور سب کے ساتھ محبت سے رہے گا۔
جانوروں نے ہاتھی کی بات مان لی کیونکہ وہ بھی چاہتے تھے کہ جنگل میں امن ہو۔ اس دن کے بعد ہاتھی نے کسی پر زور نہ ڈالا اور سب جانور خوشی خوشی مل جل کر رہنے لگے۔
سبق
پیارے بچو! ہمیں اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ غرور اور ظلم کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے۔ ہمیں ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے اور دوسروں کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آنا چاہئے۔