
سردیوں کی آمد سے پہلے ایک دن جنگل میں تیز ہوائیں چلنے لگیں۔ آسمان پر کالے بادل چھا گئے۔ بارش شروع ہوئی اور موسلا دھار بارش کے ساتھ بجلی بھی کڑکنے لگی۔ جنگل کے کنارے ایک نالے کے قریب چھوٹے سے گڑھے میں مکھیوں کا چھوٹا سا خاندان رہتا تھا۔ انھوں نے گھاس پھوس سے اپنا گھر بنایا تھا جو بارش سے بھیگ کر زمین میں دھنسنے لگا۔
مکھیاں بارش سے بچنے کی کوشش کر رہی تھیں مگر ان کا گھر کمزور ہوتا جا رہا تھا۔ قریب ہی ایک ٹیلے پر ایک بوڑھا ٹڈی دل رہتا تھا۔ اس نے جب مکھیوں کی حالت دیکھی تو فوراً اپنے قریبی رشتے داروں کو خبر دی جو درختوں کے پتوں پر رہتے تھے۔
رشتے داروں میں ایک جوان اور طاقتور ٹڈی نے فوراً فیصلہ کیا کہ سب مل کر مکھیوں کی مدد کریں گے۔ اس نے اپنے گروہ کو کہا کہ “خالی ہاتھ نہ جانا، جو کچھ ہو سکے ساتھ لے جانا۔ مکھیوں کو سردی، بھوک اور بارش سے بچانا ہمارا فرض ہے۔”
ٹڈیوں کا گروہ کچھ پتے، خشک گھاس اور کھانے کے ٹکڑے لے کر مکھیوں کے پاس پہنچا۔ مکھیوں کو انھوں نے فوراً اپنے ساتھ درخت کے نیچے لے جا کر محفوظ پناہ دی۔ کچھ ٹڈیوں نے گھاس سے عارضی چھت بنائی تاکہ مکھیوں کو سردی نہ لگے۔
دو دن مسلسل بارش ہوتی رہی۔ ٹڈیاں مکھیوں کو کھانے دیتی رہیں اور ان کا خیال رکھتی رہیں۔ تیسرے دن سورج نکلا اور آہستہ آہستہ زمین خشک ہونے لگی۔
جب موسم بہتر ہوا تو مکھیوں نے واپس جانے کی اجازت مانگی۔ ٹڈیوں نے ان کے لیے خشک پتے اور کچھ خوراک کا بندوبست بھی کیا تاکہ وہ اپنے نئے گھر کی تیاری کر سکیں۔
جانے سے پہلے مکھیوں نے سب ٹڈیوں کا شکریہ ادا کیا۔ ان کی آنکھوں میں خوشی اور دل میں سکون تھا۔
سبق
دیکھنے میں تو یہ مدد چھوٹی سی تھی مگر مشکل وقت میں کیا گیا ہر نیک عمل بہت بڑی نعمت بن جاتا ہے۔ جیسے کہا گیا ہے
“ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔”