Chamakdar Jugnoo – چمکدار جگنو

چمکدار جگنو

سوہنے موہنے بچو یہ کہانی ایک ننھے سے خارپشت کی ہے جسے رات کے وقت جگنو دیکھنا بہت اچھا لگتا تھا وہ ہر رات اپنے بل کے باہر آ کر بیٹھ جاتا اور ٹمٹماتے جگنوؤں کی روشنی میں مسحور ہو کر ان سے باتیں کرتا رہتا

ایک دن اس نے اپنی امی سے پوچھا
امی کیا میں سارے جگنو گن سکتا ہوں

امی نے مسکرا کر کہا
نہیں بیٹا جگنو بہت سارے ہوتے ہیں

ننھے خارپشت نے ضد کی
کیوں نہیں گن سکتا مجھے پوری گنتی آتی ہے ایک سے لے کر ایک ہزار تک

امی نے پیار سے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا
اچھا اب سوجاؤ صبح تمہیں ابو کے ساتھ جنگل جانا ہے

مگر خارپشت کو نیند نہ آئی وہ چپکے سے بل سے باہر نکلا اور جگنوؤں کو گننا شروع کر دیا ایک دو تین چار پانچ چھ ساتھ آٹھ

جب قریب کے جگنو گن لیے تو وہ اور آگے بڑھا ساتھ ساتھ گنتی بھی کرتا رہا

چالیس اکتالیس بیالیس تینتالیس

اچانک وہ ایک کانٹے دار جھاڑی سے ٹکرا گیا اور اس کی پیٹھ میں کانٹے چبھ گئے

اف میں نے صرف پینتالیس جگنو گنے ہیں اور ابھی تو بہت سارے باقی ہیں

اسی وقت ایک مینا پر سے بولی
کیا تم جگنو گن رہے ہو

جی ہاں میں آج ساری رات جگنو گنوں گا

مینا ہنسی
تم یہ نہیں کر سکتے جگنو تو بہت زیادہ ہوتے ہیں

خارپشت نے ضد کرتے ہوئے کہا
اگر جگنو زیادہ ہیں تو میری گنتی بھی زیادہ ہے ایک دو تین چار پانچ

مینا نے کہا
اچھا ٹھیک ہے مجھے اپنے گھونسلے میں جانا ہے اور وہ اڑ گئی

خارپشت چلتا رہا گنتا رہا ستّر اکّتر بہتر تیہتر

ایک گلہری بھی آ گئی اس نے پوچھا
اتنی رات کو تم کیا کر رہے ہو

میں جگنو گن رہا ہوں سب کے سب

گلہری بولی
یہ تو بہت مشکل کام ہے بچے

خارپشت بولا
لیکن مجھے گنتی آتی ہے اور وہ پھر سے گنتی سنانے لگا

گلہری نے تھک کر کہا
چلو بھائی میں تو چلتی ہوں

اب خارپشت کے قدم آہستہ ہو گئے اس کی آواز دھیمی ہونے لگی

نو سو چھیانوے نو سو ستانوے نو سو اٹھانوے نو سو ننانوے ایک ہزار

اس نے رک کر آسمان کی طرف دیکھا

جگنو اب بھی ویسے ہی چمک رہے تھے

خارپشت تھک چکا تھا اسے احساس ہوا کہ گنتی ختم ہو گئی ہے لیکن جگنو ختم نہیں ہوئے

اس نے دھیرے سے کہا
امی سچ کہتی تھیں جگنو بہت سارے ہوتے ہیں اور میری گنتی محدود ہے

اس نے ایک نرم پتی کھائی اور قریبی چشمے سے پانی پیا اور سکون سے واپس اپنے بل کی طرف چل دیا

کہانی کا سبق
دنیا میں کچھ چیزیں اتنی خوبصورت اور بے حد ہوتی ہیں کہ ہم انہیں مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتے ہمیں مان لینا چاہیے کہ علم اور کوشش کے باوجود کچھ سچائیاں صرف تجربے سے سمجھی جا سکتی ہیں

 

Download Free Reader

We don’t spam! Read our privacy policy for more info.

Scroll to Top