
نائلہ گل ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئی جہاں لڑکیوں کی تعلیم کو وقت کا ضیاع سمجھا جاتا تھا مگر نائلہ بچپن ہی سے ایک الگ سوچ رکھتی تھی وہ روز صبح امی سے کتابوں کے بارے میں سوال کرتی تھی اور لکڑی کی تختی پر حروف بنا کر خوشی محسوس کرتی تھی
جب وہ پانچویں جماعت میں تھی تو اسکول میں اسے ایک دن موقع ملا کہ وہ چھوٹی کلاس کے بچوں کو نظم سکھائے اس دن اس نے طے کر لیا کہ وہ ایک دن بہت بڑی معلمہ بنے گی جو صرف علم نہیں بلکہ عزت نفس بھی دے گی
بارہ سال کی عمر میں اس کے والد کا انتقال ہو گیا حالات مشکل ہو گئے غربت نے گھر کو آ لیا مگر اس کی ماں نے کہا کہ بیٹا علم کی روشنی کبھی مدھم نہ ہونے دینا یہی تمہارا اصل زیور ہے
نائلہ نے گھر پر کپڑے سینے کا کام شروع کیا اور اپنی پڑھائی جاری رکھی اس نے ایف اے پرائیویٹ کیا اور پھر بی اے میں پوزیشن حاصل کی
اس دوران وہ گاؤں کی بچیوں کو گھر کے صحن میں پڑھانے لگی چھوٹے چھوٹے پتھروں پر بیٹھ کر وہ بچیاں پڑھتی تھیں اور خواب دیکھتی تھیں نائلہ ان کے اندر علم کا شوق جگاتی تھی
کئی لوگوں نے اسے روکا تنقید کی حتیٰ کہ ایک دن اسکول کا سامان توڑ دیا گیا مگر نائلہ ڈری نہیں
اس نے علم کی مشعل تھامی رکھی اور دن رات محنت کرتی رہی
اس نے بعد میں ایک چھوٹا سا اسکول قائم کیا جہاں صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ اخلاقی تربیت بھی دی جاتی تھی وہ بچیوں کو بولنے کا ہنر سکھاتی تھی اور لڑکوں کو عزت دینے کا سبق پڑھاتی تھی
اسے ایک ملکی تعلیمی مقابلے میں بہترین گراس روٹ ٹیچر کا ایوارڈ ملا اور اسے پانچ لاکھ روپے کا انعام بھی دیا گیا
اس رقم سے اس نے ایک لائبریری بنائی جس کا نام تھا روشنی کا کمرہ
نائلہ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی اور اسے اقوام متحدہ کے ایک تعلیمی فورم میں پاکستان کی نمائندگی کا موقع ملا جہاں اس نے بتایا کہ حقیقی تبدیلی اسکول کے بورڈ پر نہیں استاد کے دل میں ہوتی ہے
اسے پاکستان کی بہترین معلمہ قرار دیا گیا اور اسے قومی سطح پر اعزاز سے نوازا گیا
نائلہ گل ایک ایسی معلمہ بنی جو نہ صرف پڑھاتی ہے بلکہ دلوں کو جیت لیتی ہے
قوم اپنی اس ہونہار اور باہمت بیٹی پر فخر کرتی ہے اور اسے سلام پیش کرتی ہے