
عائشہ آٹھویں جماعت کی طالبہ تھی گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہو چکی تھیں اور وہ اپنے وقت کو مفید بنانے کے لیے کچھ نیا سیکھنے کا سوچ رہی تھی عائشہ کو ہمیشہ سے کھانا پکانے کا شوق تھا خاص طور پر اپنی امی کو دیکھ کر وہ اکثر کہتی تھی امی میں بھی آپ کی طرح مزیدار کھانے پکایا کروں گی
ایک دن عائشہ نے امی سے کہا امی آج میں پلاؤ بنانا سیکھنا چاہتی ہوں
امی نے مسکرا کر جواب دیا بیٹا پلاؤ آسان نہیں ہوتا اس میں چاول کی مقدار مصالحے پانی سب درست ہونا چاہیے ورنہ یا تو چاول کچے رہ جاتے ہیں یا بالکل نرم ہو جاتے ہیں
عائشہ نے پرجوش انداز میں کہا امی میں سب کچھ آپ سے سیکھوں گی اور ساتھ ساتھ نوٹ بھی کر لوں گی
امی نے خوش ہو کر کہا چلو ٹھیک ہے آج تم میرے ساتھ پلاؤ بناؤ گی
پہلے عائشہ نے امی کی مدد سے چاول بھگوئے پھر پیاز کو باریک کاٹ کر بھوننا سیکھا جب پیاز سنہری ہو گئی تو امی نے گوشت ڈال کر مصالحہ بھوننا سکھایا عائشہ نے ہر چیز بڑی توجہ سے کی اور امی کی ہدایت پر عمل کیا
امی نے کہا جب گوشت گل جائے اور پانی خشک ہو جائے تب ہم چاول ڈالیں گے اور پھر اسے دم پر رکھیں گے
عائشہ نے سب کچھ نوٹ کیا اور ہر کام خود کیا آخرکار پلاؤ تیار ہو گیا خوشبو پورے گھر میں پھیل گئی امی نے پلیٹوں میں پلاؤ نکالا اور دسترخوان پر رکھ دیا
شام کو ابو دفتر سے واپس آئے تو امی نے کہا آج ہماری بیٹی نے پلاؤ بنایا ہے
ابو حیرت سے بولے واقعی یہ تو بہت خوشی کی بات ہے
ابو نے پلاؤ کھایا اور خوش ہو کر کہا واہ ہماری بیٹی نے تو مزہ ہی کر دیا بہت لذیذ ہے
وہ خوشی سے عائشہ کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہیں اور ایک خوبصورت ڈائری کا تحفہ دیتے ہیں تاکہ وہ اپنی ریسیپیز لکھتی رہے
عائشہ کے چہرے پر خوشی چھا جاتی ہے اور وہ سوچتی ہے میں ضرور ایک دن بہت بڑی شیف بنوں گی