
بہت وقت پہلے ایک پہاڑی علاقے میں ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جہاں کے لوگ سادہ مزاج اور محنتی تھے ان کے درمیان ایک نوجوان چرواہا رہتا تھا جو اپنے جانوروں کو چرانے کے ساتھ ساتھ بزرگوں کی باتوں کو بھی بہت غور سے سنتا اور سیکھتا رہتا
اس گاؤں میں یہ رسم تھی کہ ہر سال کسی ایک نوجوان کو جنگل کے اس پار موجود ایک پرانی اور سنسان وادی میں جا کر چھ ماہ گزارنے ہوتے تھے اور واپسی کے بعد وہ نوجوان گاؤں کا سردار مقرر کیا جاتا لیکن آج تک جتنے بھی نوجوان وہاں گئے وہ یا تو واپس نہ آ سکے یا اگر آ بھی گئے تو اتنے بیمار اور کمزور ہو چکے تھے کہ وہ سرداری کے قابل نہ رہے
جب اس چرواہے کا نام نکلا تو سب لوگ پریشان ہو گئے مگر اس نے حوصلے سے کام لیا اور کہا میں ضرور جاؤں گا اور واپس آؤں گا اس نے جانے سے پہلے کچھ دانے کچھ اوزار کچھ پودے اور ایک چھوٹا سا جانوروں کا جوڑا ساتھ لیا
جنگل پار کر کے جب وہ وادی میں پہنچا تو وہاں خوفناک خاموشی تھی ہر طرف جھاڑیاں پتھر اور جنگلی جانوروں کی آوازیں آ رہی تھیں مگر وہ چرواہا نہ ڈرا اس نے سب سے پہلے ایک محفوظ جگہ پر اپنے خیمے لگائے اور صاف پانی کی تلاش شروع کی پھر اس نے پودے اگانے شروع کیے اور ہر دن کچھ نہ کچھ وادی کو سنوارنے میں لگ گیا
دو مہینے میں اس نے ایک چھوٹا سا باغ بنا لیا جہاں سبزیاں اگنے لگیں چار مہینے میں اس نے ایک چھوٹا سا گھر بنا لیا اور چھ مہینے مکمل ہونے پر وہ نہ صرف زندہ تھا بلکہ تندرست اور خوش تھا وادی اب سنسان نہیں رہی تھی بلکہ ایک خوبصورت جگہ بن چکی تھی
جب وہ واپس آیا تو لوگ حیرت میں تھے کہ یہ کیسے ممکن ہوا اس نے سب کو بتایا کہ اگر انسان ہمت کرے اور مستقبل کی فکر کرے تو وہ ویرانے کو گلزار بنا سکتا ہے
لوگوں نے اسے گاؤں کا سردار بنا دیا اور آج بھی وہ چرواہا اپنی وادی واپس جاتا ہے وہاں کے درختوں پھولوں اور جانوروں کے درمیان سکون سے زندگی گزارتا ہے
عقلمند وہی ہوتا ہے جو حالات سے نہ گھبرائے اور آنے والے وقت کی تیاری کرے کیونکہ جو لوگ صرف حال میں جیتے ہیں وہ ویرانی میں کھو جاتے ہیں اور جو مستقبل کو سنوارتے ہیں وہ تاریخ میں زندہ رہتے ہیں