
گڈو بیٹا خوشی میں بھی ہوش رکھو
گرمیوں کی چھٹیاں اپنے عروج پر تھیں اور گڈو میاں کے دل میں ہر وقت صرف ایک ہی خیال آتا کھانا اور صرف کھانا کبھی برگر کبھی آلو کے چپس اور کبھی دادی کے ہاتھوں کے بنے دہی بڑے
گڈو کے ابا شہر کی ایک مشہور ہوٹل سے دہی بڑے لا کر فریج میں رکھ دیتے تاکہ مہمان آئیں تو ان کی خاطر مدارت ہو لیکن گڈو کے ذہن میں یہ مہمان کوئی خلائی مخلوق لگتے تھے جو کبھی آتے ہی نہیں تھے اور دہی بڑے فریج میں اداس پڑے رہتے
ایک دن کی بات ہے گڈو نے چھپ کر فریج کھولا ایک شاندار سی ٹرے میں دہی بڑے رکھے تھے اوپر سے بوہڑ مصالحہ لال مرچ ہرا دھنیا پیاز کی لچیاں سب کچھ ایسا لگ رہا تھا جیسے آسمان سے کوئی نعمت اُتری ہو
یہ سب میرے ہی لیے تو ہیں گڈو نے خود کو سمجھایا
وہ فریج سے دہی بڑے نکال کر سیدھے چھت پر چلے گئے تاکہ کوئی دیکھ نہ لے ساتھ میں بوتل بھی لے لی اور نیپکن بھی
چھت پر ہوا چل رہی تھی کبوتر گٹر گوں کر رہے تھے اور گڈو دہی بڑوں پر ٹوٹ پڑے
لیکن یہ خوشی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی
ابھی ٹرے آدھی بھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ گڈو کو پیٹ میں کچھ ہلچل محسوس ہونے لگی پہلے تو انھوں نے نظرانداز کیا لیکن آہستہ آہستہ وہ ہلچل ایک باقاعدہ مظاہرہ بن گئی
ہائے اللہ گڈو چھت پر لیٹ گئے نیپکن سے منہ پونچھتے ہوئے لیکن پیٹ تھا کہ گول گول چکر کاٹنے لگا
تھوڑی دیر میں چیخ نکل گئی اوووووو میرے پیٹ میں طوفان آگیا ہے
نیچے سے دادی کی آواز آئی کیا ہوا گڈو کوئی اُڑنے لگا ہے کیا چھت سے
امی جان بھاگتی ہوئی آئیں اور چھت پر گڈو کو لیٹا دیکھا ایک ہاتھ پیٹ پر دوسرا دہی بڑوں کی ٹرے پر
اوہ خدایا یہ دہی بڑے تم نے کھا لیے امی نے پیشانی پر ہاتھ مارا
ابا جان بھی آگئے اور فوراً گڈو کو لے کر قریبی کلینک پہنچے
ڈاکٹر صاحب نے ساری صورتحال سنی اور مسکرا کر بولے گڈو بیٹا دہی بڑے خوشی کی چیز ہیں لیکن ان کی خوشی میں ہوش بھی ضروری ہوتا ہے
گڈو کو انجیکشن بھی لگا ڈرپ بھی چڑھی اور دادی جان نے کان پکڑوا کر خوب سبق سکھایا
واپس آ کر گڈو نے ٹرے دیکھ کر صرف ایک جملہ کہا
اب مجھے صرف اُبلے چنے اور ابا کی نصیحتیں ہی کھانی ہیں