
حساب جوں کا توں، کنبہ ڈوبا کیوں
کسی گاؤں میں اکرم نام کا ایک شخص رہتا تھا۔ وہ تھوڑا بہت اسکول گیا تھا اور اسے حساب کتاب کے چند اصول آتے تھے۔ مگر وہ خود کو بہت بڑا عقلمند سمجھتا تھا۔ جب بھی کسی کا حساب خراب ہوتا، وہ فوراً کہتا، “مجھے دو، میں سب جوں کا توں کر دوں گا۔”
اکرم کا ایک چھوٹا سا کنبہ تھا — بیوی، دو بچے اور ایک بیمار والد۔ ایک دن اس کے گاؤں میں سیلاب کا خطرہ ہوا۔ سب لوگ اپنا سامان سمیٹ کر محفوظ مقام پر جا رہے تھے۔ مگر اکرم بیٹھا کاپی پینسل لے کر حساب کرنے لگا کہ اگر وہ پانچ دن کا راشن چھوڑ دے اور ایک چادر کم لے جائے، تو کتنا وزن بچے گا، اور کتنا خرچ بچ جائے گا۔
اس کی بیوی بار بار کہتی رہی، “اکرم، پانی بڑھ رہا ہے، چلو نکلیں۔” مگر وہ حساب میں الجھا رہا۔ اس نے کہا، “اگر میں سب کچھ جوں کا توں نکال لوں، تو ہمیں کسی چیز کی کمی نہیں ہو گی۔”
لیکن اسی اثنا میں پانی آ گیا۔ وہ اپنا سامان سمیٹ بھی نہ پایا اور نہ ہی اپنا خاندان محفوظ مقام تک پہنچا سکا۔ جب گاؤں کے لوگ واپس آئے، تو انھوں نے دیکھا کہ اکرم کا گھر بہہ چکا تھا۔ وہ اور اس کا کنبہ کسی نہ کسی طرح جان بچا کر درخت پر چڑھ گئے تھے، مگر سارا سامان، اناج اور گھر کا حساب کتاب سب پانی میں بہہ گیا تھا۔
جب گاؤں کے بزرگ نے ساری بات سنی تو صرف اتنا کہا:
“حساب جوں کا توں، کنبہ ڈوبا کیوں؟“