
الٹا چڑیا گھر: جہاں انسان قید تھے
کبھی کی بات ہے، ایک جنگل کے بیچوں بیچ ایک عجیب چڑیا گھر تھا۔ یہ چڑیا گھر باقی چڑیا گھروں سے بالکل مختلف تھا۔ یہاں جانور آزاد تھے اور قید میں تھے تو صرف انسان۔
ہر ہفتے جانور اپنے بچوں کو لے کر آتے اور اس نایاب چڑیا گھر کی سیر کرتے۔ ایک دن ایک ریچھ اور اس کا بچہ بھی اس چڑیا گھر کو دیکھنے آئے۔ جیسے ہی وہ انسانوں کے پنجرے کے سامنے پہنچے، ریچھ کا بچہ بہت حیران ہوا۔
“ابّو، یہ انسان کیا کر رہے ہیں؟ یہ تو کچھ بھی نہیں کر رہے۔ بس بیٹھے ہیں۔”
ریچھ نے ہنستے ہوئے کہا، “یہ انسانوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے، کچھ نہ کرنا۔ تم یہ دیکھو، یہ جو ادھر کونے میں بیٹھا ہے، یہ پچھلے دو گھنٹے سے صرف موبائل دیکھ رہا ہے۔”
ریچھ کا بچہ چونک گیا، “یہ کیا دیکھ رہا ہے؟”
“یہ سوشل میڈیا ہے۔ یہاں لوگ دوسروں کی زندگی دیکھ کر اپنی برباد کرتے ہیں۔ نہ ورزش، نہ نیند کا خیال، نہ وقت کی قدر۔”
دوسری طرف ایک انسان بڑے سے برگر اور چپس کا پیکٹ کھا رہا تھا۔
بچے نے پوچھا، “یہ کیا کھا رہا ہے؟”
ریچھ نے سر جھٹک کر کہا، “یہ جنک فوڈ ہے۔ اس میں نہ طاقت ہے نہ غذائیت۔ مگر انسان اسے بہت شوق سے کھاتے ہیں، اور پھر بیمار ہو جاتے ہیں۔”
ایک اور پنجرے میں انسان بیٹھا اونچی آواز میں چیخ رہا تھا، اور گیم کھیل رہا تھا۔
“یہ کیوں چیخ رہا ہے؟” ریچھ کے بچے نے پوچھا۔
“یہ ویڈیو گیم کھیل رہا ہے، جس میں نہ کچھ سیکھا جاتا ہے، نہ کچھ حاصل ہوتا ہے۔ بس وقت ضائع اور دماغ خراب۔”
ریچھ کے بچے نے اداس ہو کر کہا، “یہ تو سب بہت بیکار عادتیں ہیں۔”
ریچھ نے سر ہلایا، “اسی لیے انھیں اس چڑیا گھر میں رکھا گیا ہے۔ تاکہ دوسرے جانوروں کو سبق ملے کہ ایسی عادتوں سے بچنا ہے۔”
جب وہ واپس جنگل جا رہے تھے، تو ریچھ نے اپنے بچے سے کہا، “دیکھو، سیکھنے والے کے لیے ہر منظر ایک سبق ہوتا ہے۔ انسان نے اگر اپنی عادتیں نہ بدلیں تو وہ قید میں ہی رہیں گے۔”
ریچھ کا بچہ سر ہلاتے ہوئے بولا، “ہمیں کبھی ایسی حرکتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ ہم آزاد ہیں، تو ہمیں اپنی آزادی کی قدر کرنی چاہیے۔”