
بادشاہ، شہزادی اور ہوشیار خرگوش
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک دور دراز سلطنت میں ایک نیک دل بادشاہ رہتا تھا۔ اس کی ایک بیٹی تھی، جس کا نام نور تھا۔ شہزادی نور بہت ذہین تھی اور اسے جانوروں سے بات کرنے کی خاص صلاحیت حاصل تھی۔ وہ پرندوں کی چہچہاہٹ، بلیوں کی میاؤں اور خرگوشوں کی پھدک پھدک کو سمجھ لیتی تھی۔
بادشاہ چاہتا تھا کہ نور عوام کی خدمت کرنا سیکھے، اس لیے وہ اکثر اسے عدالت میں اپنے ساتھ بٹھاتا تاکہ وہ لوگوں کے مسائل سنے اور انصاف کے فیصلے کرنا سیکھے۔
ایک دن ایک کسان اور ایک شہد بیچنے والا دربار میں حاضر ہوئے۔ ان کے ساتھ ایک خرگوش بھی تھا جو ایک چھوٹے پنجرے میں بند تھا۔ کسان بہت غصے میں تھا اور کہہ رہا تھا کہ یہ خرگوش میرے کھیت میں گھس آیا اور میری تمام گاجریں کھا گیا۔ میری مہینوں کی محنت برباد ہو گئی
شہد بیچنے والا پریشان کھڑا تھا۔ وہ بولا کہ یہ خرگوش میرے پیچھے خود ہی لگ گیا۔ میں نے اسے کہیں سے پکڑا نہیں، نہ ہی یہ میرا پالتو ہے
شہزادی نور خرگوش کے قریب گئی اور نرمی سے پوچھا، کیا تم نے گاجریں کھائیں؟
خرگوش نے معصومیت سے کہا، ہاں، میں جنگل سے آ رہا تھا، اور مجھے بہت بھوک لگی تھی۔ میں نے سوچا یہ گاجریں جنگل کی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ کسی کے کھیت کی ہیں
شہزادی نور نے سب کچھ بادشاہ کو بتایا۔ بادشاہ نے کہا کہ کسان کا نقصان ہوا ہے، لیکن شہد والے کا اس میں کوئی قصور نہیں، اس لیے اُسے کوئی سزا نہیں دی جا سکتی
شہزادی نور نے کچھ دیر سوچا اور پھر ایک بہترین فیصلہ سنایا کہ چونکہ خرگوش جنگل سے آیا ہے اور اب انسانوں کے درمیان رہنا چاہتا ہے، تو اسے کسان کے ساتھ ہی رہنا چاہیے۔ وہ کسان کے کھیت کی نگرانی کرے گا تاکہ آئندہ کوئی اور جانور نقصان نہ پہنچائے۔ بدلے میں کسان اسے تھوڑی گاجریں کھانے کو دے سکتا ہے
کسان مسکرایا۔ یہ تو بہت عمدہ حل ہے۔ ایک ہوشیار خرگوش میرے کھیت کی رکھوالی کرے گا
خرگوش نے خوش ہو کر پھدکتے ہوئے کہا، کُرخ کُرخ میں اپنی غلطی کا ازالہ کرنے کے لیے تیار ہوں
شہد والا بھی مطمئن نظر آیا اور بولا، مجھے خوشی ہے کہ میرے ساتھ انصاف کیا گیا
بادشاہ نے سر ہلایا۔ یہی تو اصل انصاف ہے: ہر فریق کی بات سن کر مناسب حل نکالنا
شہزادی نور نے سکون کا سانس لیا، اور دربار میں سب نے خوش ہو کر تالیاں بجائیں۔